آنکھوں سے میرے اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی
مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھےدےدیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی
آئے کوئی آ کر یہ تیرے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی
معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے تیرے قصے
یہ بات تیری ہم سے اچھالی نہیں جاتی
ہمراہ تیرے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام کوئی درد سے خالی نہں جاتی
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی
No comments:
Post a Comment