دوست بن کر جو کل ملا تھا مجھے
کتنا بے چین کر گیا ہے مجھے
وہ تھا خوشیوں کا ایک سوداگر
جو مجھے کل ملا تھا رستے میں
میری آنکھوں میں آنسوؤں کے نشاں
صاف کر کے بڑی محبّت سے
میرے ہاتوں میں پھول پکڑآ کے
جھک کے اُس نے کہا تھا ہولے سے
اب سُنو، میری پوری بات سُنو
صبح ہوتی ہے اُس طرف دیکھو
درد کا سب سفر تمام ہوا
دوست! آج کے بعد تم نہ روؤ گی
میں نے سچ مان لی تھی بات اُس کی
آنسوؤں کی جھڑی میں ہنس دی تھی
آج پھر دُکھ بھرا اکیلا دن
کرب کی رات درد کے سپنے
زینہ زینہ اُترتے آتے ہیں
شام ڈھلتی ہے پھر اُفق کے پار
آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں
کون جانے وہ منچلا ہنس مُکھ
کون سے شہر کس گلی میں ہو
پھر کوئی میرے جیسی لڑکی ہو
جو اُسے دوست ہی سمجھتی ہو
جس کو وہ پھر نوید دیتا ہو
لو سُنو، میری پوری بات سُنو
دوست درد کے مرحلے تمام ہوئے
آج کے بعد تم نہ روؤگی
اُس کو عادت ہے دُکھ بٹانے کی
پھول دینے کی، دوست کہنے کی
اور پھر قول بھول جانے کی
No comments:
Post a Comment