کیسے کہیں کہ جان سے پیارا نہیں رہا
یہ اور بات ہے اب وہ ہمارا نہیں رہا
کچھ دن تمھارے لوٹ کے آنے کی آس تھی
اب اس امید کا بھی سہارا نہیں رہا
رستے مہ و نجوم کے تبدیل ہو گئے
ان کھڑکیوں میں ایک بھی تارا نہیں رہا
سمجھے تھے دوسروں سے بہت مختلف تجھے
کیا مان لیں کہ تو بھی ہمارا نہیں رہا
ہاتھوں پہ بجھ گئی ہے مقدر کی کہکشاں
یا راکھ ہو گیا وہ ستارہ نہیں رہا
No comments:
Post a Comment