نقاب اُٹھائے تو دُشمن سلام کر دے گا
جمالِ یار محبت کو عام کر دے گا
یہ دُھوپ ، چھاؤں کے موسم ہیں اُس کی مٹھی میں
اَگر ضَروری لگا ، دِن میں شام کر دے گا
ہے کوہ قاف پہ اُس شوخ گُل کا ذِکر حرام
کہ ننھی پریوں کو یہ بے لگام کر دے گا
طلسمِ مصر ہے اُس کے حسین ہاتھوں میں
جو وُہ بنائے تو چائے کو جام کر دے گا
نہ چھوڑ اِس قَدَر آزاد اَپنی آنکھوں کو
یہ کام تجھ کو کسی کا غلام کر دے گا
تمام رات فقط چاند دیکھتے رہنا
تمہارا کام کسی دِن تمام کر دے گا
غزل ، صنم پہ سبھی لکھتے ہیں مگر مجنوں!
کتاب لکھے گا ، لیلیٰ کے نام کر دے گا
خدا کے واسطے ، اُمید کی حفاظت کر
خدا نے چاہا تو دُشمن بھی کام کر دے گا
اُداس ہو تو غزل اور بھی سناؤں حُضور؟
جو مسکراؤ تو قیس اِختتام کر دے گا۔
No comments:
Post a Comment