تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے
کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہیئے ؟
آنکھ بھی خون ہوگئ دامن بھی اب گلنے کو ہے
گلستاں میں پڑ گئی ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل ،خون دل ملنے کو ہے
اجنبی سی سرزمیں ناآشنا سے لوگ ہیں
ایک سورج تھا شناسا ،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے
ہر نئی منزل کی جانب صورت ابر رواں
میرے ہاتھوں سے نکل کر میرا دل چلنے کو ہے
شہر پر طوفاں سے پہلے کا سناٹا ہے آج
حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے
اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں
خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے
سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
کاروان انجم وماہتاب بھی چلنے کو ہے
No comments:
Post a Comment