اِک موجۂ صہبائے جُنوں تیز بہت ہے
اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے
کچھ دِل کا لہُو پی کے بھی فصلیں ہُوئیں شاداب
کچھ یُوں بھی زمیں گاؤں کی زرخیز بہت ہے
پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا
اِس ہجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے
بولے تو سہی، جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دلآویز بہت ہے
کیا اُس کے خدوخال کھلیں اپنی غزل میں
وہ شہر کے لوگوں میں کم آمیز بہت ہے
محسنؔ اُسے ملنا ہے تو دُکھنے دو یہ آنکھیں
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ "شب خیز" بہت ہے
No comments:
Post a Comment