Friday 21 September 2012

مِرے دشمنوں سے کہو کوئی



مِرے دشمنوں سے کہو کوئی 
کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے 
کہ شکست یوں بھی قبول ہے 
کبھی حوصلے جو مثال تھے 
وہ نہیں رہے 
مِرے حرف حرف کے جسم پر 
جو معانی کے پر و بال تھے وہ نہیں رہے 
مِری شاعری کے جہان کو 
کبھی تتلیوں ،کبھی جگنووں سے 
سجائے پھرتے خیال تھے 
وہ نہیں رہے 
مِرے دشمنوں سے کہو کوئی 
وہ جو شام شہر وصال میں 
کوئی روشنی سی لیے ہوئے کسی لب پہ جتنے سوال تھے 
وہ نہیں رہے 
جو وفا کے باب میں وحشتوں کے کمال تھے،وہ نہیں رہے 
مِرے دشمنوں سے کہو کوئی 
وہ کبھی جو عہدِ نشاط میں 
مجھے خود پہ اِتنا غرور تھا کہیں کھو گیا 
وہ جو فاتحانہ خمار میں 
مِرے سارے خواب نہال تھے 
وہ نہیں رہے 
کبھی دشت لشکر شام میں 
مِرے سرخرو مہ و سال تھے، وہ نہیں رہے 
کہ بس اب تو دل کی زباں پر 
فقط ایک قصّئہ حال ہے 
جو نڈھال ہے 
جو گئے دنوں کا ملال ہے 
مِرے دشمنوں سے کہو کوئی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets