کئی برسوں سے جس پل کو
میں دل کی جھیل کی تہہ میں
سلا کے بھول بیٹھی تھی
وہی پل جاگ اٹھا تو، کنول بن کر چمک اٹھا
میں چونک اٹھی کہ یہ سب کس طرح سے ہوگیا یک دم
وہ پل جاگا تو جیسے خون کی ساری ہی شریانیں
کسی نے کھینچ کر رکھ دیں
لگا پانی کا رستہ بھول کر مچھلی نے گویا چن لیا صحرا
بغاوت کا ارادہ کرلیا سانسوں کے طوفاں نے
یہ دھڑکن گنگنا اٹھی
لگا پیروں سے لے کے سر تلک شعلے بھڑک اٹھے
لہو کی ساری بوندوں نے سلگنے کی قسم کھا لی
پگھلتا ہی گیا جذبوں کا سونا موم کی صورت
ان آنکھوں میں محبت کے ہزاروں دیپ جل اٹھے
مری چندھیا گئی پلکیں
تھکا ماندہ نظر آیا فلک کا چاند آخرکار
ستارے پڑگئے مدھم
سنو، اک بات مانو گے؟
تم اپنی ساری چاہت کو مری جاگیر کر ڈالو
وفا ہوں میں مجھے پیروں کی تم زنجیر کر ڈالو
مجھے اب خواب سے تعبیر کر ڈالو
No comments:
Post a Comment