Saturday 15 September 2012

جل بجھیں تتلیاں محبت کی


حوصلہ مجھ میں بھی بلا کا تھا
راستہ ’’غالبا‘‘ وَفا کا تھا

جل بجھیں تتلیاں محبت کی!۔
دَشت بپھرا ہُوا اَنا کا تھا

کل جسے عُمر بھر کو چھوڑ دِیا
پیار بھی اُس سے اِنتہا کا تھا

ہر دُعا دی جدائی پر اُس نے
لیکن اَنداز بد دُعا کا تھا

سانس روکے کھڑا تھا مَلَکُ الموت
سامنا دیپ کو ہَوا کا تھا

بھولنے والا لوٹ تو آیا
وَقت مغرب کا یا عشا کا تھا

رُک گیا میں سزا سے کچھ پہلے
اُس کو اِحساس خُود خطا کا تھا

بُت کدے میں مرا تو پھر کیا ہے؟
ماننے والا تو خدا کا تھا

سَب خزانے منگا لیے رَب نے
فیصلہ عشق کی جزا کا تھا!۔

قیس تھا لاجواب ، لیلیٰ بھی
جب سوال ’’ایک‘‘ کی بقا کا تھا!۔


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets