Saturday 15 September 2012

دل میں پھر اِک کسک سی اُٹھی مدّتوں کے بعد


یہ سوچ کر کہ تیری جبِیں پر نہ بَل پڑے
بس دُور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے


دل میں پھر اِک کسک سی اُٹھی مدّتوں کے بعد
اِک عُمر سے رُکے ہوئے آنسُو نِکل پڑے


سینے میں بے قرار ہیں مُردہ محبتیں
مُمکن ہے یہ چراغ کبھی خُود ہی جل پڑے


اے دل! تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا مِلا
پودوں میں پُھول اور درختوں میں پَھل پڑے


اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے


شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نِکلا جو ماہتاب، سمندر اُچھل پڑے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets