Sunday, 30 September 2012

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو



خواب کے پھولوں کی تعبیریں پرانی ہو گئیں
خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گئیں

دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر
جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں

جو مقدر میں تھا اس کو روکنا تو بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں نا گہانی ہو گئیں

رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں


الوداع ثبت ہُوئی تھی جس پر ... اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں



چاند اُس دیس میں نکلا کہ نہیں
جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں

اے مجھے جاگتا پاتی ہُوئی رات
وہ مری نیند سے بہلا کہ نہیں

بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا 
اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں

مجھ کو تکمیل سمجھنے والا 
اپنے معیار میں بدلا کہ نہیں

گنگناتے ہوئے لمحوں میں اُسے
دھیان میرا کبھی آیا کہ نہیں

بند کمرے میں کبھی میری طرح 
شام کے وقت وہ رویا کہ نہیں

میری خود داری برتنے والے
تیرا پندار بھی ٹوٹا کہ نہیں

الوداع ثبت ہُوئی تھی جس پر 
اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں


duaayen hoti hain maghmoom, be'samar ho kar
























اِسی لیے نہیں مانگا اُسے خدا سے کبھی
دعائیں ہوتی ہیں مغموم، بے ثمر ہو کر

isi liye nhi maanga usay khuda say kabhi
duaayen hoti hain maghmoom, be'samar ho kar

بجھا بجھا اُسے پایا تو کچھ ہوئی تسکیں
کہ خوش تو وہ بھی نہیں ہم سے بے خبر ہو کر

bujha bujha usay paaya to kuch hui taskeen
keh khush to woh bhi nhi hum say be'khabar ho kar

Saturday, 29 September 2012

Usay Bhula Doon, Magar Hosla Kahaan Mujh Men



Usay Bhula Doon, Magar Hosla Kahaan Mujh Men
Woh Merey Khoon Ki Tarah Hai Rawaan Dawaan Mujh men,

Yeh Be Sabab To Nahi Mujh Men Girya-o-Zaari
Koi To Rehta Hai Har Waqt Noha Khwaan Mujh Men,

Bas Ek Zalzala Aaya Tha Aur Guzar Bhi Giya
Magar Woh Chhor Gaya Hai Kai Nishaan Mejh Men,

Azeez Itna Bhi Kyun Hai Sakoot-e-Shaam-e-Al'am ??
Kahaan Sey Aaee Hain Itni Udasiyan Mujh Men ??

Kabhi Main Dard K Darya Men Doob Jata Hoon
Kabhi Yeh Dard Utarta Hai Meri jaan Mujh Men,

Ye Kon Baant Gaya Mujh Men Ronaqain Apni ??
Yeh Kon Kar Gaya Abaad Ek Jahaan Mujh Men ??

Main Jab Bhi Haath barrhaney Lagta Hoon Gulon Ki Taraf
To Urrney Lagti Hain Titliyaan Mujh Men

Thursday, 27 September 2012

اب کہیں جا کے میرے زخم بھرے ہیں


حوصلہ چھوڑ گیا تھا ساتھ نبھانے والا

جانے کس سمت گیا آج وہ جانے والا

آج پھر آنکھ میں آے ہزاروں آنسو


آج پھر یاد وہ آیا ہے بھلانے والا

اب کہیں جا کے میرے زخم بھرے ہیں


دیکھو اب کہیں لوٹ کے آ جاے نہ جانے والا

اے خدا اس کا ہر خواب سلامت رکھنا


غم نہ دیکھے وہ میرے خواب جلانے والا

اب کہیں راہ میں مل جاے تو اتنا کہنا


مر گیا کب کا تیرے ناز اٹھانے والا

ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر


فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے 
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے

کیسے دم توڑ گئیں‌ سینے میں رفتہ رفتہ
حسرتیں حسرت ناکام سے پہلے پہلے 

باعث فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
گھر اُجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے

آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں‌‌ ڈال دیا
وہ تو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے

ہو بھی سکتا ہے خاص نظر آنے لگیں
وہ جو لگتے ہیں‌ عام سے پہلے پہلے

ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر
ہم بھی چونک اُٹھتے تھے اک نام سے پہلے پہلے

ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد 
سرہانے رکھ کر

ہاں مگر گردش ایام سے پہلے پہلے

کس قدر تیز ہوائیں تھیں سر شام 
کہ دل

جل بجھا رات کے ہنگام سے پہلے پہلے

اب کے مشکل وہ پڑی ہے کہ یہ جاں جاتی ہے۔
سعد رہتے تھے ہم آرام سے پہلے پہلے


آنکھوں کی رم جھم



سنا ہو گا بہت تم نے

کہیں آنکھوں کی رم جھم کا
کہیں پلکوں کی شبنم کا 

پڑھا ہو گا بہت تم نے

کہیں لہجے کی بارش کا
کہیں ساگر کے آنسو کا

مگر تم نے کبھی ہمدم

کہیں دیکھا ؟ کہیں پڑھا؟

کسی تحریر کے آنسو

مجھے تیری جدائی نے 
یہی معراج بخشی ہے

کہ میں جو لفظ لکھتی ہوں
وہ سارے لفظ روتے ہیں

کہ میں جو حرف بنتی ہوں
وہ سارے بین کرتے ہیں

میرے سنگ اس جدائی میں
میرے الفاظ مرتے ہیں

سبھی تعیف کرتے ہیں 
میری تحریر کی لیکن

کبھی کوئی نہیں سنتا 
میرے الفاظ کی سسکی

فلک کو جو ہلا ڈالیں
میرے لفظوں میں ہیں شامل
اسی تاثیر کے آنسو

مدتوں بعد مری آنکھ میں آنسو آئے


وقت رخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے پھول سے بازو آئے


بس گئی ھے مرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں تری خوشبو آئے


میں نے دن رات خدا سے یہ دعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ھومرے در پہ اور تو آئے


اسکی باتیں کہ گل و لالہ پر شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے


ان دنوں آپ کا عالم بھی عجب عالم ھے
شوخ کھایا ھوا جیسے کوئی آھو آئے


اس نے چھو کر مجھے پتھر سے انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھ میں آنسو آئے

آج رات چلے گی پھر ہوا اداسی کی



سکوت شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی دوا اداسی کی

امور دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تیری چلتی ہے یا اداسی کی

بہت شریر تھا میں اور ہنستا پھرتا تھا
پھر ایک فقیر نے دے دی دعا اداسی کی

چراغ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی پھر ہوا اداسی کی

بہت دنوں سے ملاقات ہی نہیں ہوئی محسن
کہیں سے خیر خبر لے کر آ اداسی کی


اس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دُگنی محسن


میں جو مہکا تو میری شاخ جلادی اس نے
سبز موسم میں مجھے زرد ہوا دی اس نے

پہلے اک لمحے کی زنجیر سے باندھا مجھ کو
اور پھر وقت کی رفتار بڑھادی اس نے

جانتا تھا کہ مجھے موت سکون بخشے گی
وہ ستم گر تھا سو جینے کی دعا دی اس نے

اس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دُگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹادی اس نے

Hasil-e- ISHQ



Hasil-e- ISHQ Kya Btaaun Main


Qurb Boya Tha, Hiijr Kata Hai..!!!

مزاج برہم.. خفا سا لہجہ.. اُداس چہرہ



















مزاج برہم
خفا سا لہجہ
اُداس چہرہ
ناراض آنکھیں
وجہ جو پوچھی میں نے اُس سے
?جان میری۔۔۔! اُداس کیوں ہو
کیوں ہو برہم
ناراض کیوں ہو
بھر کے اُچھلیں آنکھیں اس کی
لڑکھڑا کے گلے لگا کر
مجھ سے بولی:
"کہاں گئے تھے?کیوں گئے تھے?
مجھے بتاؤ
تمھارے بن جو بے بسی تھی
علاج اس کا بتا کے جاتے
تم جو بچھڑو
کہاں میں ڈھونڈوں
سراغ اپنا بتا کے جاتے
تمہیں پتا تھا
تمہارے بن میں
ایک پل بھی رہ نہیں سکتی
چاہے بچھڑے دنیا ساری
تیری جدائی سہہ نہیں سکتی
تمہیں قسم ہے
اب نہ جانا
مر جاؤں گی تمہارے بن میں
چلو اب مجھ سے وعدہ کر لو
کہیں بھی جاؤ
کبھی بھی جاؤ
ساتھ مجھ کو لے کے جانا
پھر سے مجھ کو سزا نہ دینا
تمہیں قسم ہے


kon shakhs aaya hey khaawaab haath meN thaamey



Ab k waQt ki mohlat
khatm honey waali hey
khawaab k sabhi Taair
aankh k dareechey sey
gir k marney waaley hain
sabz aas bailoN k……
patay jhaRney waaley hain
zindagi k maathey par
zard paRRtey honton sey
saans aakhri bossa
dey k jaaney waali hey
kuch hi pal tau baaQi hain
ab k waQt kii mohlat…….
khatm honey waali hey
kon shakhs aaya hey
khaawaab haath meN thaamey
ye yaQeeN dilaaney ko
keh agar meiN ruk jaaun
gar zara si mohlat ho
Zakhm silney waaley hain
Phool khilney waaley hain
ussko kaesey samjhaaun
uss ney deir kar di hey
kuch hi pal tau baaQi hain
kuch hi pal tau baaqi they…
ab k waqt ki mohlat……

بچھڑ جانا ضروری ہے


کسی لمبے سفر کی باگ تھامے تونے عجلت میں

مرے ہاتھوں پہ اپنی مسکراتی بولتی تصویر رکھی تھی

اور اس کی پشت پر جلدی میں لکھا تھا

''بچھڑ جانا ضروری ہے''

تمہیں جانے کی چاہت تھی

مجھے کچھ اور چلنا تھا

تمہیں کچھ اور کہنا تھا

مجھے کچھ اور سننا تھا

اداسی سے بھری اس شام ہم دونوں

مخالف سمت اپنی خواہشوں کی سیپیاں چننے کو نکلے تھے

نہ جانے چلتے چلتے کتنے سالوں نے ہمارے تن پہ

اپنی داستاں لکھی

نہ جانے کتنے چہروں نے ہمیں چلتے ہوئے روکا

نہ جانے کتنی بانہوں نے ہمارے راستے روکے

مگر یہ بھی حقیقت تھی!

نہ تم مجھ کو بھلا پائے

نہ میں تم کو بھلا پائی

نہ تیری مسکراتی بولتی تصویر دھندلائی

سسکتے سرد جھونکوں سے بھری اک شام کی یخ بستہ

بانہوں سے

اچانک واپسی کی نرم انگلی تھام کر واپس پلٹ آئی

وہی لمحہ وہی ساعت' وہی رستہ ابھی تک ساکت وبے دم کھڑے تھے

جس جگہ کالے سیہ پتھر پہ شاید تم نے لکھا تھا

''بچھڑ جانا ضروری ہے''

''ملن رت کی دوبارہ واپسی ممکن نہیں ہے''

دل بھول نہیں پاتا



دل بھول نہیں پاتا 
وہ خواب محبت کا
دل بھول نہیں پاتا 
کیا بھید انوکھا ہے 
جب سوچنے بیٹھو تو 
کچھ یاد نہیں آتا
اک پل کے لیے پھر بھی
وہ خواب محبت کا
بےچین جو گزریں ہیں
راتیں تو بہت سی تھیں
کرنے کے لیے اس سے 
باتیں تو بہت سی تھیں
وہ سامنے آیا تو
سب بھول گئیں مجھ کو
سوچا ہے بہت لیکن
کچھ یاد نہیں آتا
دل بھول نہیں پاتا

میری منزل کا پتہ اس بار اپنے نام کا رکھنا



میں جس سفر میں ہوں 
اُس سفرمیں تمہیں ہمسفر
بنا سکتا نہیں
مرے قدم ایسے راستوں میں گُم ہیں
کہ میں خود اپنی منزل کا پتا 
بتا سکتا نہیں
لیکن مجھے معلوم ہے
مجھے لوٹ کر ہی آنا ہے
تو پھر یہ التجا ہے میری تم سے
جب کبھی میں گرد آلود جسم کے ساتھ
اپنی روح کو 
نامُرادیوں اور مایوسیوں کے پتھروں پر
گھسیٹا ہوا 
واپس تمہارے پاس آؤں اگر
بس تم اتنا کرنا
میرے جُھلسے ہوئے وجود کو
اپنے آنسوؤں سے تر کردینا
اور ہاتھ پکڑ کر میرا 
پھر سے وہیں کھڑا کردینا
جہاں سے میں نے پہلے 
سفر شروع کیا تھا
مگر اُس بار یہ ضرور کرنا 
میرے ہاتھ میں دیا 
اپنی شام کا رکھنا
بس اتنی التجا ہے میری
میری منزل کا پتہ 
اس بار 
اپنے نام کا رکھنا

جانے کیوں?


جانے کیوں
بارش جب بھی ہوتی ہے
میرے اندر تیری یاد
چپکے چپکے روتی ہے

معنی کا عذاب



چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ہوکر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا

بھولے بھالے اک بچے نے
بے معنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا ہے

مرگِ انتظار



تو نہ آتا تو یہ خواب
اور کچھ دن یونہی زندہ رہتے
اور کچھ دن یونہی آنکھوں میں سجاتے
ترے چہرے کے نقوش
اور کچھ دن یونہی سینے میں ترے نام کی دھڑکن رہتی
اور کچھ دن یونہی لمحہ لمحہ
تار مژگاں پہ پروتے تری چاہت کے ستارے
تری خواہش کے حسیں رنگ
ترے لمسِ تصور کے کنول
اب جو تو لوٹ کے آیا ہے تو آنکھوں میں تری یاد
نہ چاہت کے ستارے ہیں
نہ خواہش کے حسیں رنگ
نہ پلکوں پہ ترے لمسِ تصور کے کنول ہیں
فقط اک نم ہے، نم شیشۂ جاں

پگلی



سپنے بنتے نیناں پر
ہونٹ جب اپنے رکھ دوگے
دھیرے دھیرے سرگوشی میں
کانوں سے کچھ کہدوگے
اور میں۔۔۔
آنکھیں موندے موندے
کروٹ اپنی بد لوں گی
گہری نیند کو شوخ ادا سے
چپکے چپکے کھولوں گی
آنچل میں چہرے کو چھپا کر
کَن اَکھیوں سے دیکھوں گی
چاند کی چوڑی سے کرنیں
چھن چھن،چھن چھن ٹوٹیں گی
جھیل سی ٹھہری دھڑکن اُس دَم
دھک دھک ،دھک دھک بولے گی
اور تم بھی۔ ۔ ۔ 
دھیرے سے ہنس کر
مجھ کو کہدوگے
پگلی ۔ ۔ ۔

جانےکہاں پہ دل ہےرکھا




آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سےچھپ کرتکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہے جیتا
روز کا ہی معمول ہے یہ تو
کل بھی بیتا آج بھی بیتا
درد بھی ویسا ہی بلکل ہے
تھوڑا تھوڑا ، میٹھا میٹھا
چولھا، چوکا، جھاڑو، پونچھا
سب کچھ کر بیٹھی تب سوچا
ہر شے پونچھ کے جھاڑ کے دیکھا
جانےکہاں پہ دل ہے رکھا ۔۔۔

محبت چھوڑ دی اس نے



وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی 
وفا ھے ذات عورت کی 
مگر جو مرد ھوتے ھیں 
بہت بے درد ھوتے ھیں 
کسی بھنورے کی صورت 
گل کی خوشبو لوٹ جاتے ھیں

سنو ۔
تم کو قسم میری
روایت توڑ دینا تم 
نہ تنہا چھوڑکر جانا 
نہ یہ دل توڑ کر جانا

مگر۔
پھر یوں ھوا کہ 
مجھے انجان راستے پر 
اکیلے چھوڑ کر اس نے 
میرا دل توڑکر اس نے 
محبت چھوڑ دی اس نے 
وفا ھے ذات عورت کی 
روایت توڑدی اس نے

یہ گئےدنوں کاملال ہے



یہ گئےدنوں کاملال ہے
مِرے دُشمنوں سے کہوکوئی
کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے
کہ شکست یوں بھی قبول ہے
کبھی حوصلے جو مثال تھے
وہ نہیں رہے
مِرے حرف حرف کے جسم پر
جو معانی کے پروبال تھے وہ نہیں رہے
مِری شاعری کے جہان کو
کبھی تتلیوں ،کبھی جگنوؤں سے سجائے پھرتے
خیال تھے
وہ نہیں رہے
مِرے دشمنوں سے کہو کوئی
وہ جو شام شہر وصال میں
کوئی روشنی سی لیے ہوئے کسی لب پہ جتنے سوال تھے
وہ نہیں رہے
جو وفا کے باب میں وحشتوں کے کمال تھے،وہ نہیں رہے
مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی
وہ کبھی جو عِہد نشاط میں
مُجھے خود پہ اِتنا غرور تھا کہیں کھوگیا
وہ جو فاتحانہ خُمار میں
مِرے سارے خواب نہال تھے
وہ نہیں رہے
کبھی دشت لشکر شام میں
مِرے سُرخرد مہ وسال تھے، وہ نہیں رہے
کہ بس اب تو دل کی زباں پر
فقط ایک قصّئہ حال ہے—–جو
نڈھال ہے
جو گئے دنوں کا ملال ہے
مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی

اب بھی ہر دسمبر میں اسکی یاد آتی ہے



مجھ سے پوچھتے ہیں لوگ
کس لئے دسمبر میں
یوں اداس پھرتا ہوں
کوئی دکھ چھپاتا ہوں
یا کسی کے جانے کا
سوگ پھر مناتا ہوں

آپ میرے البم کا صفحہ صفحہ دیکھیں گے
آئیے دکھاتا ہوں ضبط آزماتا ہوں

سردیوں کے موسم میں گرم گرم کافی کے
چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
کوئی مجھ سے کہتا تھا 
ہائے اس دسمبر میں کس بلا کی سردی ہے
کتنا ٹھنڈا موسم ہےکتنی یخ ہوائیں ہیں

تم بھی عجب شے ھو 
اتنی سخت سردی میں ہوکے اتنے بےپروا
جینز اور ٹی شرٹ میں کس مزے سے پھرتے ھو
شال بھی مجھے دی کوٹ بھی اوڑھا ڈالا 
پھر بھی کانپتی ہوں میں

چلو اب شرافت سے پہن لو سوئیٹر
تمہارے لئے بن لیا تھا دودن میں
کتنا مان تھا اس کو اپنی چاہت پر

"اب بھی ہر دسمبر میں اسکی یاد آتی ہے"

گرم گرم کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی
ہاتھ گال پر رکھے حیرت و تعجب سے
مجھ کو دیکھتی رہتی اور مسکرادیتی
شوخ و شنگ لہجے میں مجھ سے پھر وہ کہتی تھی
اتنے سرد موسم میں آدھی سلیوز کی ٹی شرٹ

"میل شاوانیزم" ہے
کتنی مختلف تھی وہ
سب سے منفرد تھی وہ

سنا ہے دسمبر جانے والا ہے



سنا ہے دسمبر جانے والا ہے
پھر سے کوئی نیا سال آنے والا ہے
نئے کلینڈر بھی دیواروں پر آ جائیں گے
لوگ کہتے ہیں دسمبر لوٹ جائے گا

لوگ کہتے ہیں دسمبر لوٹ جانے سے
ان کی یادوں کی،عذاب راتوں کی حدت
ماند پڑ جاتی ہے، بےجان پڑ جاتی ہے
ان کی سیاہ راتوں کو اک نور ملتا ہے
دسمبر کے لوٹ جانے سے انہیں سرور ملتا ہے

پر میں لوگوں کو کیسے سمجھاوں،،،؟
جنوری ہو، فروری ہو یا کوئی بھی موسم
سال کے بارہ ماہ ہی تو دسمبر ہیں
دسمبر کا رنگ سیاہ گر آنکھوں میں پیوست ہو جائے
اگر دسمبر اک بار بھی بام پی اتر آئے
تو دیواروں پر محض کیلنڈر بدلنے سے
ہجر نہیں جاتا، عذاب راتیں نہیں جاتی
دسمبر نہیں جاتا، یادیں نہیں جاتی
تو جان لو لوگو، یہ مان لو لوگو
ابھی تک تمہارا دسمبر آیا ہی نہیں ہے
ہاں، ابھی تک تم نے دسمبر دیکھا ہی نہیں ہے

آج دسمبر کی پہلی بارش تھی



آج دسمبر کی پہلی بارش تھی۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے ابھی تک
جب برستی ٹپ ٹپ کرتی رم جھم میں۔۔۔۔
ہاں دسمبر کی اس ٹھٹھرتی
سرد رات کی پہلی بارش میں
اس نے مجھ سے کہا تھا
"مجھے بارشیں سرد موسم کی بہت پسند ہیں۔۔۔۔"

سرد موسم کی بارشوں سے انسیت رکھنے والا
میرے لہجے میں سرد پن اتار گیا ہے
مری ذات میں عجب طرز کی
اک ٹھنڈک اتار گیا ہے
میں جس کو چھو لوں
وہ برف کا محبوس ہو جاتا ہے
مجھے اب اندازہ ہوتا ہے
اسے سرد موسم کی بارش سے کیا نسبت تھی۔۔۔۔۔۔
اسے سرد موسموں کی بارش سے کیا قربت تھی۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر ٹھہر جاؤ



!دسمبر ٹھہر جاؤ
ابھی لمحے نہیں بکھرے
ابھی موسم نہیں بچھڑے
میرے کمرے کی ٹھنڈک میں
ابھی کچھ دھوپ باقی ہے
میری ڈائری کے کچھ صفحے
ابھی کچھ کہ نہیں پائے
میرے آنگن کے کچھ پودے
ابھی بھی گنگناتے ہیں
میرے بے جان ہونٹوں پر
ابھی مسکان ویسی ہے
کسی کے لوٹ آنے کا
ابھی امکان باقی ہے
!!دسمبر ٹھہر جاؤ
دسمبر ٹھہر جاؤ

تمہاری زردآنکھوں سےبھی سرد دسمبر بہتا تھا؟



سُناہے ڈائری لکھتے ہو تم ؟
کیسا بھی موسم ہو
تمہارے ہاتھ میں
قلم رہتا ہے
اپنے دل کا سارا بوجھ ہلکا کرتے ہو
کاغذوں سے باتیں کرتےہو
لفظوں کی دنیا بناتےہو
سُناہے ڈائری لکھتے ہو تم ؟
تمہاری ڈائریوں میں چھپا ہے
وہ سب تم نے لکھا ہے
جو تم نے جیا ہے
ڈائریوں کوسجایا ہے
اُنہیں بنایاہے
سُنا ہےبہت چاہ سے رکھتے ہو ؟
سُناہے ڈائری لکھتے ہو تم ؟
مجھے بس ایک بات پوچھنی ہے
کبھی لفظ دسمبربھی لکھا ہے تم نے؟
دسمبر کی سردطویل راتوں میں
!کبھی تو لکھا ہوگا دسمبر کو
کبھی نکلا ہوگاتمہارےقلم سےبھی
دسمبر درد؟
اورلفظوں میں ڈھلا ہوگا
!وہ درد سرد
اتنی ڈائریاں لکھ چکےہو تم تو
مجھے بس یہ بتاؤ
دسمبر لکھا ہے جب بھی تم نے
تمہارے أنسوبھی بہتے تھے؟
تمہاری زردآنکھوں سےبھی
سرد دسمبر بہتا تھا؟
مجھے یہ بتاؤ
وہ آنسو کیسے روکتے ہیں؟
!!سنا ہے
ڈائری لکھتے ہو تم؟

یہ دسمبر آخری ھوگا



دسمبر مجھ سے بولا تھا 
اب کے میں آؤنگا 
تجھے پھر سے پکارونگا 
اسے میں ساتھ لاؤنگا 
جو تجھ کو بھول بیٹھا ھے 
کہ جس کے ہجر کا لاوا 
تیرے تن میں جلتا ھے 
کہ جس کی یاد کی جھیلوں میں 
 اکثر تم ڈوب جاتے ھو 
کہ جس کے واسطے بیٹھے 
یہاں تم گیت گاتے ھو۔

دسمبر مجھ سے بولا تھا 
سنو تم بھول نہ جانا 
جو یادیں اس نے سونپی ھیں 
جو لمحے اس نے بخشے ھیں 
چاہے یہ زخم سارے 
روح کا ناسور بن جائیں 
انھیں بھرنے نہیں دینا 
انھیں مرنے نہیں دینا 
کہ ان زخموں پہ مرہم 
ایک دن اس نے ہی رکھنا ھے ۔

دسمبر آگیا لیکن 
دسمبر وہ نہیں آیا 
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا 
اسے وہ ساتھ لائے گا 
مجھے پھر سے پکارے گا۔

دسمبر غور سے سن لو 
اسے تم بھی بتا دینا 
یہ سانسیں مچلی بیٹھی ھیں 
اب رخصت پہ جانے کو 
یہ آنکھیں بھی برستی ھیں 
اسے واپس بلانے کو 
مگر یہ جانتے ھیں ہم 
ہمیں وہ بھول بیٹھا ھے۔ 

دسمبر آئے جو اب ھو 
تو اتنا یاد رکھ لینا 
دسمبر اور ہی تھا وہ 
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا 
                             مجھے امیدیں بخشی تھیں
مجھے جینا سکھایا تھا 
بہت سا معصوم تھا میں تو 
جو اتنا بھی نہیں سمجھا کہ 
دسمبر تو دسمبر ھے 
سب ہی کو رلاتا ھے 
ہمیشہ دیر کرتا ھے 
صنم کے طور رکھتا ھے 
صدا آخر میں آتا ھے 

دسمبر اس سے کہہ دینا 
مجھے جتنا بھی تڑپا لے 
کہ تجھ سے ہار مانی ھے 
اب ہم نے یہی ٹھانی ھے 
یوں اس سے دور جانا ھے 
کبھی واپس نہ آنا ھے 

چلو چھوڑو اب جانے دو 
دسمبر کچھ بھی نہ کہنا 
کوئی شکوہ نہیں کرنا 
کہ جس سے یہ گماں گزرے 
اسے ہم یاد کرتے ھیں 
اسی کی راہ تکتے ھیں 
کہ اپنی زندگی کا 
اس ساری کہانی کا 
یہ منظر آخری ھوگا 
یہ دسمبر آخری ھوگا 
یہ دسمبر آخری ھوگا

اماں نی میں نے عشق کیا ھے



اماں نی میری آنکھیں ترسیں
سانول آس نہ پاس
اماں نی میری نیندیں بھاگیں
مجھ سے کوسوں دور
اماں نی میرے سپنے ٹوٹے 
چبھ گئی سینے پھانس 
اماں نی میں پیاس سے تڑپی 
دل دریا کے بیچ 
اماں نی میری سُنے نہ کوئی 
ھاری کر کر بین 
اماں نی میری کشتی ڈوبی 
عین کنارے پاس
اماں نی میرا سانول بچھڑا 
ساون رُت کے پار 
اماں نی میرے اندر بادل
بارش روکے کون 
اماں نی میں ھوئی اکیلی 
شہر میں ایک ھجوم 
اماں نی میں نے چاند چُرایا 
جیون ھُوا اندھیرا 
اماں نی میں نے عشق کیا ھے
سہہ لوں گی حالات 
اماں نی میرے نین سُہاگی 
دِل بِرھا کی مانگ

اب بھی ہر دسمبر میں اسکی یاد آتی ہے


مجھ سے پوچھتے ہیں لوگ
کس لئیے دسمبر میں
یوں اداس رہتا ہوں
کوئی دکھ چھپاتا ہوں
یا کسی کے جانے کا
سوگ میں مناتا ہوں

آپ میرے البم کا
صفحہ صفحہ دیکھیں‌ گے
آئیے دکھاتا ہوں
ضبط آزماتا ہوں

سردیوں کے موسم میں
گرم گرم کافی کے
چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
کوئی مجھ سے کہتا تھا
ہائے اس دسمبر میں
کس بلا کی سردی ہے
کتنا ٹھنڈا موسم ہے
کتنی یخ ہوائیں ہیں

آپ بھی عجب شے ہیں
اتنی سخت سردی میں
ہو کے اتنے بے پروا
جینز اور ٹی شرٹ میں
کس مزے سے پھرتے ہیں

شال بھی مجھے دے دی
کوٹ بھی اڑھا ڈالا

پھر بھی کانپتی ہوں میں

چلئیے اب شرافت سے
پہن لیجئے سویٹر
آپ کے لئیے میں‌ نے
بن لیا تھا دو دن میں

کتنا مان تھا اس کو
میری اپنی چاہت پر

اب بھی ہر دسمبر میں
اسکی یاد آتی ہے

گرم گرم کافی کے 
چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
ہاتھ گال پر رکھے
حیرت و تعجب سے
مجھ کو دیکھتی رہتی
اور مسکرا دیتی

شوخ و سرد لہجے میں
مجھ سے پھر وہ کہتی تھی
اتنے سرد موسم میں
آدھی سلیوز کی ٹی شرٹ!ٓ
اس قدر نہ اترائیں
سیدھے سیدھے گھر جائیں
اب کی بار جب آئیں
براؤن ٹراؤزر کے ساتھ
بلیک ہائی نیک پہنیں
کوٹ کوئی ڈھنگ سا لے لیں
ورنہ میں‌ قسم سے پھر ایسے روٹھ جاؤں‌ گی
سامنے نہ آؤں گی
ڈھونٹتے ہی رہئیے گا
پاس بیٹھے ابّو کے
پالٹیکس پر کیجئے گرم گرم ڈسکشن
کافی لے کے کمرے مِیں مَیں تو پھر نہ آؤں‌ گی
خالی خالی نظروں‌ سے آپ ان خلاؤں‌ میں 
یوں ہی تکتے رہئیے گا
اور بے خیالی پر ڈانٹ کھاتے رہئیے گا

کتنی مختلف تھی وہ
سب سے منفرد تھی وہ
اپنی ایک لغزش سے
میں نے کھو دیا اسکو

اب بھی ہر دسمبر میں
اسکی یاد آتی ہے


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets