ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے
صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے
صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے
جب کشتی ڈالی تھی کس نے سوچا تھا
دریا میں طُغیانی بھی ہو سکتی ہے
دریا میں طُغیانی بھی ہو سکتی ہے
نئے سفر کے نئے عذاب اور نئے گُلاب
صُورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے
صُورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے
ہر پَل جو دِل کو دہلائےرکھتی ہے
کُچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے
کُچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے
سفر ارادہ کر تو لیا پر رستوں میں
رات کوئی طوفانی بھی ہو سکتی ہے
رات کوئی طوفانی بھی ہو سکتی ہے
اُس کو میرے نام سے نسبت ہے لیکن
بات یہ آنی جانی بھی ہو سکتی ہے
بات یہ آنی جانی بھی ہو سکتی ہے
No comments:
Post a Comment