Wednesday 10 October 2012

اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں



شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی

ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی

مجھے تنہاءیوں کا خوف کیوں ہے
وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی

وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی

سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی

اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی

دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی

اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets