Tuesday, 16 December 2014

Friday, 7 November 2014

Tum pukaro to sahi loat kay aa jaayen gay



Hum is qadar bhi nhi apni anaa kay taabey
Tum pukaro to sahi loat kay aa jaayen gay

Friday, 31 October 2014

تیرے بدلنے پہ کیا گلہ

سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے

میرے دل سے بھی گزرتی ہے کوئی نہر فرات



کربلا کوئی فسانہ نہ فسوں ہے ، یوں ہے
یہ تو اک سلسلہ کن فیکوں ہے یوں ہے

میرے دل سے بھی گزرتی ہے کوئی نہر فرات
میری آنکھوں میں جو یہ موجہ خوں ہے ، یوں ہے

ذکر آیا تھا ابھی حضرت زینب کا کہیں
’’ تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے ، یوں ہے‘‘

قیمت خلد ہے اک اشک عزائے شبیر
اب کوئی لاکھ یہ کہتا رہے یوں ہے ، یوں ہے

ان کی کوشش غم شبیر فنا ہوجائے
اور یہ غم کہ فزوں اور فزوں ہے، یوں ہے

پھر ہوئے مجھ کو عطا حرف پئے مدح و سلام
ان پہ روشن مرا احوال دروں ہے ، یوں ہے

قبر میں ہوگی زیارت مجھے مولا کی عقیل
موت جو میرے لیے وجہ سکوں ہے ، یوں ہے

Thursday, 30 October 2014

Main Tasavur Hoon Meri Koi Bhi Tasveer Nahin

File:Sad guy Edward.jpg

Phir Milen Ya Na Milen La'al Keh Gohar Mujh Men
Ik Dafa Chhaan Kay To Dekh Samandar Mujh Men

Main Tasavur Hoon Meri Koi Bhi Tasveer Nahin
Tu Musawir Hai To Ehsaas Ka Rang Bhar Mujh Men 

Apni Taaser Ka Daawa Hai Kiya Kab Main Ney
Main To Zulmat Hoon Chamak Uthtey Hain Akhtar Mujh Men

Ghar K Koorrey Ki Terha Phainka Gaya Hoon Bahir
Tu Woh Chuun Ley Jo Nazar Aata Hai Behtar Mujh Men 

Ay Barahman Mujhay Itna Bhi Namaskar Na Kar
Cheekh Uthey Na Kahin Zaat Ka Shoodar Mujh Men

Main To Ik Jheel Ki Tarha Say Hon Paband-o-Khamosh
Lehren Aa Jati Hain Jab Girtey Hain Kankar Mujh Men

Monday, 27 October 2014

راز




چاند نکلا ہے 

چاندنی لے کر

اور تاروں کا رقص جاری ہے

پھول ہی پھول کھل گئے ہر سو

کیف سا اک جہاں پہ طاری ہے

ایک کمرے کی کھلی کھڑکی سے

تک رہی ہوں میں راستہ تیرا

اور

ہیہ سوچ رہی ہوں کب سے

تیری فرقت میں اے مرے جاناں

کیوں مرے دل کو بےقراری ہے؟

تیری تصویر کیوں ہے آنکھوں میں

تیری خوشبوسی کیوں ہے سانسوں میں

کیوں تیرے لمس کے تصور سے

بے خودی آج مجھ پہ طاری ہے؟


Friday, 24 October 2014

سُرخ گُلابوں کے موسم میں


بہت بے رنگ سے دِن ہیں  
ترے گُلنار گالوں کے گُلابی پھول کِھلتے ہیں
نہ تیرے پُھول ہونٹوں سے
مِلن کی شوخ باتوں کے سُنہری رنگ میں لپٹی
کوئی تتلی ھی اُڑتی ہے
نہ دِن کے زرد کاغذ پر تری تصویر بنتی ہے
نہ شب کی کالی چادر پر تری آنکھیں چمکتی ہیں
نہ تیری مُسکراھٹ کی کِرن ملنے کو آتی ہے
رگوں کے سرد غاروں میں
اُداسی جمتی جاتی ہے
ترے گُلنار گالوں کے گُلابی پھول کِھلتے ہیں
نہ تیرے چہرے کے پل پل بدلتے رنگ ملتے ہیں
حریم ِ ذات میں جاناں 
بہت بے رنگ سے دِن 

Friday, 3 October 2014

اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم



لبوں پر حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی
میں جشن ِ فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی

اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی

اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی

وہ لمحہ بھر کی کہانی عمر بھر میں کہی
ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی

زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر
کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گردِ راہگزار کے بھی

مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے
میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی

مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسن
بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی

Saturday, 27 September 2014

ایک پُرہیبت سکوتِ مستقل آنکھوں میں تھا



جِسم تپتے پتھروں پر، رُوح صحراؤں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھاؤں میں تھی

ایک پُرہیبت سکوتِ مستقل آنکھوں میں تھا
ایک طغیانی مسلسل، دل کے دریاؤں میں تھی

ہم ہی ہو گزرے ہیں خود اپنے شہر اجنبی
وہ جہاں بھی تھی وہاں اپنے شناساؤں میں تھی

اِک صدا سی برف بن کر گِر رہی تھی جسم پر
ایک زنجیرِ ہوا تھی، جو میرے پاؤں میں تھی

Friday, 26 September 2014

جب تک میں تیرے دل کی محبت سرا میں ہوں













دُنیا سے بے نیاز ہوں اپنی ہوا میں ہوں


جب تک میں تیرے دل کی محبت

سرا میں ہوں 


اِک تخت اور میرے برابر وہ شاہ زاد


لگتا ہے آج رات میں شہرِ سبا میں ہوں


خُوشبو کو رقص کرتے ہوۓ دیکھنے

لگی

سحِر بہار میں کہ طِلسمِ صبا میں

ہوں 


اس دل کو جب سےغم کی ضمانت

میں دے دیا


اُس وقت سے کسی کے حصارِ دُعا میں ہوں


Kamray Men Hai Bikhra Hua Saaman Waghera



Kamray Men Hai Bikhra Hua Saaman Waghera
Khatt, Khawab, Kitaaben, Gul-o-Guldaan Waghera

In Men Sey Koi Hijar Men Imdaad Ko Aaye
Jinn, Dev, Pari, Khizar, Ya Luqman Waghera

Tu Aaye To Gathrri Men Tujhey Baandh K Dey Duun
Dil, Jaan, Nazar, Soch, Yeh Emaan Waghera

Bas Ishq Kay Muqaddar Sey Zara Khaufzada Huun
Jhela Hai Bohat Wesey To Nuqsaan Waghera...

Friday, 12 September 2014

اَن سُنے لفظ



کسی ریگزار کی دھوپ میں وہ جو قافلے تھے بہار کے 
وہ جو اَن کھلے سے گلاب تھے 
وہ جو خواب تھے میری آنکھ میں 
جو سحاب تھے تیری آنکھ میں 
وہ بکھر گئے، کہیں راستوں میں غبار کے ! 
وہ جو لفظ تھے دمِ واپسیں 
میرے ہونٹ پر 
تیرے ہونٹ پر 
انہیں کوئی بھی نہیں سُن سکا 
وہ جو رنگ تھے سرِ شاخِ جاں 
تیرے نام کے 
میرے نام کے 
انہیں کوئی بھی نہیں چُن سکا۔ 

درد کے مرحلے تمام ہوئے



دوست بن کر جو کل ملا تھا مجھے

کتنا بے چین کر گیا ہے مجھے

وہ تھا خوشیوں کا ایک سوداگر

جو مجھے کل ملا تھا رستے میں

میری آنکھوں میں آنسوؤں کے نشاں

صاف کر کے بڑی محبّت سے

میرے ہاتوں میں پھول پکڑآ کے

جھک کے اُس نے کہا تھا ہولے سے

اب سُنو، میری پوری بات سُنو

صبح ہوتی ہے اُس طرف دیکھو

درد کا سب سفر تمام ہوا

دوست! آج کے بعد تم نہ روؤ گی

میں نے سچ مان لی تھی بات اُس کی

آنسوؤں کی جھڑی میں ہنس دی تھی

آج پھر دُکھ بھرا اکیلا دن

کرب کی رات درد کے سپنے

زینہ زینہ اُترتے آتے ہیں

شام ڈھلتی ہے پھر اُفق کے پار

آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں

کون جانے وہ منچلا ہنس مُکھ

کون سے شہر کس گلی میں ہو

پھر کوئی میرے جیسی لڑکی ہو

جو اُسے دوست ہی سمجھتی ہو

جس کو وہ پھر نوید دیتا ہو

لو سُنو، میری پوری بات سُنو

دوست درد کے مرحلے تمام ہوئے

آج کے بعد تم نہ روؤگی

اُس کو عادت ہے دُکھ بٹانے کی

پھول دینے کی، دوست کہنے کی

اور پھر قول بھول جانے کی

تمہاری بے رخی پر بھی تمہاری آرزو کرنا



مجھے اچھا سا لگتا ہے
تمہارے سنگ سنگ چلنا
وفا کی آگ میں جلنا
تمہیں ناراض کر دینا
کبھی خود بھی روٹھ جانا

تمہاری بے رخی پر بھی 
تمہاری آرزو کرنا
خود اپنے دل کی دھڑکن سے
تمہاری گفتگو کرنا

مجھے اچھا سا لگتا ہے

بہت اچھا سا لگتا ہے
تمہی کو دیکھتے رہنا
تمہی کو سوچتے رہنا

بہت گہرے خیالوں میں
جوابوں میں، سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہارا نام آ جانا
مجھے اچھا سا لگتا ہے

اتنی سی اِک دُعا ہے



اتنی سی اِک دُعا ہے
حسیں چاہتوں کے پھول بخشے، عروج بخشے
تمھاری دُنیا میں روشنی ہو
تمھاری محفل میں خوشیاں ہوں
تمھارے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ
کبھی بھی تم تک دکھوں کی دستک نہ پہنچ پائے
تمھاری آنکھوں میں جو ستارے چمک رہے ہیں یونہی چمکتے رہیں ہمیشہ
تمھاری دل تک جُدائیوں، بےوفائیوں کی کوئی اندھیری کِرن نہ 
پہنچے
خُدا کرے کہ ہر اک دل کاقرار لُوٹو
مگر تمھاری پر اک تمنا پر اک خواہش
تمھاری ہونٹوں تک آتے آتے
تمھارے قدموں تک آن پہنچے
جو ہوسکے تو تمھارے حصے کے سب غموں کو میں اپنے اندر اُتار 
لوں
یہ ممکن تو نہیں، لیکن دُعا تو میرا حق ہے
یہ مختصر سی دُعا کا تحفہ سنبھال رکھنا
میری اندھیروں کی فکر چھوڑو
تم بس اپنا خیال رکھنا ۔۔۔

اُسے کہنا



اُسے کہنا کہ اب وہ بارشوں کے موسم میں
دِل کے بند دریچوں کو وا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ تتلیاں پکڑنے کو
کسی سر سبز جزیرے پر جایا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ زندگی کے موضوع پہ
کوئی ترنم ریز نغمہ چھیڑا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ موجوں کے تلاطم سے
عہدِ ماضی کی طرح گھبرایا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ نرم خوابوں کی سر زمین پہ
گلاب کے سپنے سنجویا نہیں کرتی

اُسے کہنا اب وہ اپنے آنگن کے موتیا کو
کسی گجرے کے گہنے میں پرویا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ سرد اور تاریک راتوں میں
جاگتی تو رھتی ھے ، رویا نہیں کرتی

پچھتاوا ​



کیسے کہوں ؟ کس سے کہوں ؟ 
وہ خواب جو سجایا تھا 
عذاب بن کے چھایا ہے 
دشتِ جاں کی چوکھٹ پر 
تنہائی کی وحشت نے 
پھر تیرا سوگ منایا ہے 
ہر شام کے دریچوں پہ 
تمہاری یاد کی شمعوں کو 
اِس دل نے جلایا ہے 
بعد تم سے بچھڑنے کے 
ذہن ودل کی کھیتی میں 
پچھتاؤں کو اُگایا ہے ​


اُسی لمحے اُداسی دہلیز پر اُترتی ہے



کبھی بارش کے موسم میں
ہوائیں شور کرتی ہیں
خیالوں کا موسم بھی
جب ابر آلود ہو جائے
کوئی اُمید کا تارا کہیں
چمکنے سے پہلے ہی بجھ جائے
کسی ویران رہ گزر پر
آہٹ کا ہر امکان مٹ جائے
سکوت مضمحل فضا میں ہر طرف گُھل جائے
گزرتا وقت بھی ٹھہر جائے
اُسی لمحے اُداسی دہلیز پر اُترتی ہے
ہوا تھم سی جاتی ہے
حبسِ جاں اور بڑھتا ہے
دل کسی صورت پھر بہلتا نہیں۔۔۔


تضاد



کتنے کوسوں پہ جا بسی ہے تو
میں تجھے سوچ بھی نہیں سکتا
اتنا بے بس ہوں، تیری سوچ کو میں
ذہن سے نوچ بھی نہیں سکتا
مجھ سے تو دور بھی ہے، پاس بھی ہے
اور مجھے ، یہ تضاد راس بھی ہے

Monday, 8 September 2014

میں تو خانقاہوں پہ مانگتا پھرا منّتیں



میں گرہ میں باندھ کے حادثات، نکل پڑا تیری کھوج میں
کہیں تارکول کی تھی سڑک، جہاں آگ بانٹتی دھوپ تھی
کبھی کچی راہ کی دھول میں جہاں سانس لینا محال تھا
سرِ رزمِ جاں کبھی دل کے درد سے ہار کر
میں تو خانقاہوں پہ مانگتا پھرا منّتیں
کبھی رات رات بَسر دعاؤں میں ہو گئی
کبھی قافلے مری آس کے کسی دشتِ یاس میں کھو گئے
میرا پیرہن تھا پھٹا ہوا کہیں گََرد گَرد اَٹا ہوا
میں ادھورے پن کے سراب میں
تجھے دھونڈتا پھرا در بدر
کسی اجنبی کے دیار میں
کوئی دُکھہ ملا کسی موڑپہ، کوئی غم ملا کسی چوک میں
کسی راہگزر کے سکوت میں کوئی درد آکے ڈرا گیا
کبھی چل پڑا، کبھی رُک گیا، کسی کشمکش کے غبار میں
مجھے کیا ملا تیرے پیار میں
میں گرہ میں باندھ کے حادثات
کہیں گُم ہوا تیری کھوج میں

وعدوں کے شہرِطلسمات میں


wallpapers | alone boys wallpapers | alone guys wallpapers | love

مجھے مت بتانا
کہ تم نے مجھے چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا
تو کیوں
اور کس وجہ سے
ابھی تو تمہارے بچھڑنے کا دُکھہ بھی نہیں کم ہوا
ابھی تو میں
باتوں کے، وعدوں کے شہرِطلسمات میں
آنکھہ پر خوش گمانی کی پٹّی لیے
تم کو پیڑوں کے پیچھے، درختوں کے جھنڈ
اور دیوار کی پشت پر ڈھونڈنے میں مگن ہوں
کہیں پر تمہاری صدا اور کہیں پر تمہاری مہک
مجھہ پر ہنسنے میں مصروف ہے
ابھی تک تمہاری ہنسی سے نبرد آزما ہوں
اور اس جنگ میں
میرا ہتھیار، اپنی وفا پر بھروسہ ہے اور کچھہ نہیں
اسے کُند کرنے کی کوشش نہ کرنا
مجھے مت بتانا۔۔۔

Saturday, 6 September 2014

میری اتنی سی خواہش ہے




میری اتنی سی خواہش ہے
کہ میں اک آسماں ہوتا
اور تو میری زمیں ہوتی
میں جھک کر تیرے سارے غم
اپنے کاندھوں پر ڈھو لیتا
تیری تکلیفیں اور کٹھنائیاں
خود میں سمو لیتا
میرے بادلوں سے بارشیں
چھم چھم برستی تو تجھے سیراب کر دیتیں
وہ تیری پیاس کو پی کر تجھے شاداب کر دیتیں
میرے سورج کی کرنیں تجھ پر پڑتی تو
بڑی انمول ہو جاتیں
ہوا سے مل کر نئی اک شکل میں ڈھلتیں
منزل کے بول ہو جاتیں
میں تجھ سے روٹھتا تو تاریک رات ہو جاتا
مگر پھر بھی میرا چندا تیرے ہی ساتھ ہو جاتا
لیکن جاناں! 
میں نے مانا
کہ ایسا ہو نہیں سکتا
نجانے کس کی سازش ہے
مگر پھر بھی میری اتنی سی 
خواہش ہے

محبّت تو خوش گمان ہے













تمہاری انگشتری کے نگ میں
میری محبّت چمک رہی ہے
اگر کبھی یہ گماں بھی گزرے
کہ میں تمہیں بھولنے لگا ہوں
تو اس نگینے کو غور سے دیکھو
میری نگاہوں کی جگمگاہٹ
تمہاری آنکھوں سے یہ کہے گی
،“سنو“
“محبّت تو خوش گمان ہے“
اگر کوئی بغضِ دل کا مارا
تمہارے سینے میں وسوسوں کے
کیسے خنجر اُتارتا ہو
کہ وہ جو دل پھینک و بے وفا ہے
کہ وہ سب پر فریفتہ ہے
کہ وہ جو پردیس جا بسا ہے
تمہیں بھنور بیچ چھوڑ دے گا
وفا کے سب قول توڑ دے گا
چلو بس اب اُس کو بھول جاؤ
تو اس سے پہلے کہ جل بجھو تم
تو اس سے پہلے کہ یہ کہو تم
وہ عہد و پیمان سب غلط تھے
وفا کے عنوان سب غلط تھے
سحر کے امکان سب غلط تھے
تم اپنی انگشتِ مہوش پر
گلاب چہرہ جھکا کے کہنا
سنو، وہ سچ مچ بے وفا ہے ؟
تمہارا روتا سوال سن کر
وہ شوخ نگ مسکرا پڑے گا
تمہارے گالوں کو تھپتھپا کر
حسین انگشتری کہے گی
“سنو“
“محبّت تو خوش گمان ہے“

Friday, 5 September 2014

مجھے تم یاد آتے ہو

تمہیں مدت ہوئی بچھڑے 

ہمیں عرصہ ہوا بھولے 

مگر بارش کے موسم میں 

ہوا جب گنگناتی ہے 

میں اپنے گھر کی چھت سے 

چمکتے چاند کو چھپتے 

گھٹا کی اوٹ میں دیکھوں 

مجھے تم یاد آتے ہو

ابھی تو ہجر کے تاوان میں ہم نے



ابھی تو ہجر کے تاوان میں ہم نے
رہن رکھنا ہے آنکھوں کو
ابھی فرقت کی آتش میں
سلگتی ریت کی
اک لمبی مسافت ہے
ابھی اس خار وادی میں لہو ہونا ہے خوابوں کو
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں



جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں
یہ جلوہ یار کا ہے میں نہیں ہوں

کہا منصور نے سُولی پہ چڑھ کر
انالحق کی صدا ہے میں نہیں ہوں

عبا پہنے ہوئے مٹی کی مورت
کوئی بہروپیا ہے میں نہیں ہوں

میرے پردے میں آ کر اور کوئی
تماشہ کر رہا ہے میں نہیں ہوں

جو میں ہوتا خطا مُجھ سے بھی ہوتی
مُجھے ڈر کاہے کا ہے میں نہیں ہوں

جو بولے میخانے میں جا کے بیدم
وہاں نقشہ ہے میرا میں نہیں ہوں

سرد موسم کی سبز بارشوں میں



سرد موسم کی سبز بارشوں میں 
مورنی بن کر ناچوں 
اور 
اپنے رنگدار پروں پہ اپنی ایک ایک خواہش لکھ دوں 
اور 
ھر خواہش میں ایک دعا رکھ دوں 
کہ 
جب بھی میرا ساحر 
میری کتاب عمر کا باب عشق کھولے 
لکھا ھوا ھر صفحے پہ
اُسے ایک ھی نغمہ بے اختیار ملے 
میرے ساحر 
کیا مجھے یاد کیا تھا ؟

میرے بے خواب سے کہنا




میرے بے خواب سے کہنا
کہ اس نے میری آنکھوں میں
یہ کیسا ہجر لکھا ہے
کہ میں اب سو نہیں پاتی
میری آنکھوں میں دکھ صحرا سلگتے ہیں
مگر میں رو نہیں پاتی
میں اپنے بخت کا لکھا
لہو سے دھو نہیں پاتی

میں داسی ڈھولن یار کی



میں داسی ڈھولن یار کی 
میری پوری ہوئی مراد

اک آ کے یار کی قید میں 
ہوا تن، من، دھن آزاد

مری لوں لوں کوکے ہجرمیں 
کرے دم دم دل فریاد

کوئی دردمصلّہ ڈال کے 
میری مسجد کرے آباد

پہلی پہلی بارش میں

Photo

Thursday, 4 September 2014

میں کہاں مات کھانے والی تھی؟




میں کہاں مات کھانے والی تھی؟
عام موسم یا عام سے جزبے
میری نظروں میں کب ٹھہرتے تھے؟
میرے جزبوں سے کھیلنے والا
جان محفل ۔۔۔ دلوں کا سوداگر
خاص تھا اپنی سب اداؤں میں
روح کے ربط میں شفا جیسا
تھا محبت کی انتہا جیسا
مہرباں تھا تو سانس میں ریشم
بدگماں تھا توـــــــــ انتہا ظالم
نقش گر، باہنر ،کمال کا شخص
بے وفائی میں بے مثال بھی تھا

ھجرِ بد ذات کی باتیں



باتیں بے معنی ھوتی ھیں
عشقِ لا حاصل میں کیا کہیے 
اکثر وجدان و عرفان
پا کربھی
اپنی ذات کی باتیں بے معنی ھوتی ھیں

جب دل میں سویرے ھوں روشن
اِک محرمِ جاں کی یادوں سے
تب ھجرِ بد ذات کی باتیں
بے معنی ھوتی ھیں

جب دل کے بنجر صحرا کو
اشکوں کا پانی راس آتا ھو
وھاں بِن بادل برسات کی باتیں
بے معنی ھوتی ھیں
جذبوں کے کھیل میں
بساطِ حیات پر جب دل
داؤ پر لگتے ھوں

وھاں جیت اور مات کی باتیں
بے معنی ھوتی ھیں

"ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﮯ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺭﮐﮫ"



!ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ
"ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﮯ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺭﮐﮫ"
ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﺭﻗﺼﺎﮞ ﮬﯿﮟ ﺳﻠﮕﺘﯽ ﯾﺎﺩﯾﮟ
ﺳﺮِﺩﺷﺖِ ﺟﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﻭﺣﺸﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﭘﮭﺮ ﭨﮑﺮﺍﯾﺎ ﮬﮯ ﻓﺼﯿﻞِ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﮔﻢ ﮔﺸﺘﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺟﻨﻮﮞ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮬﻮﺋﮯ
ﺍﻧﺎ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ،
ﺍﯾﮏ ﮬﺎﺭﮮ ﮬﻮﺋﮯ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﭙﺎﮬﯽ ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ
ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﮐﮭﮍﺍﺩﯾﮑﮫ ﺭﮬﺎﮬﻮﮞ
ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﮬﺮ ﺳﻤﺖ ﺗﺒﺎﮬﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻇﺮ

!ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ
"ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﮯ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺭﮐﮫ"

!ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺷﻤﻦِ ﺟﺎﻥ
ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﺩﮮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھے




لڑکی سرکوجھُکائے بیٹھی
کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے
لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل
لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو
اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے
دونوں میری نظر بچا کر
اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں !
میں دونوں سے دُور
دریچے کے نزدیک
اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھے
کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی ہوں
سوچ رہی ہوں
گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھے

Wednesday, 3 September 2014

ﻣﻮﺳﻢِ ﮔﻞ ﮐﺎ آ ﺧﺮﯼ ﭘﯿﻐﺎﻡ




ﺟﺐ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﮧ ﺑﮭﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺩﻝ

ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ، ﻣﯿﺮﯼ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﺳﮯ

ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻭﻗﻒِ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ

ﻟﻤﺒﺎ ﭼﻮﮌﺍ ﺧﻄﺎﺏ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ

ﮐﺎﺭﮈ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ

ﺍِﮎ ﺳﻮﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮔﻼﺏ ﮐﺎ ﭘﮭﻮﻝ

ﺑﺲ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﻨﺎ ﺗﻢ

ﻣﯿﺮﯼ ﺗﺸﻨﮧ ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ

-ﻣﻮﺳﻢِ ﮔﻞ ﮐﺎ آ ﺧﺮﯼ ﭘﯿﻐﺎﻡ

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں















اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں 
بوجھ پانی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اچھی لگتی نہیں اس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

غمگساری بھی عجب کار محبت ہے کہ میں
رونےوالوں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر محسن
میں چراغوں کو جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

Ashk Aankhon Men Chhupatay Huway Thak Jata Hun


Ashk Aankhon Men
Chhupatay Huway Thak
Jata Hun

Bojh Paani Ka Uthaatay
Huway Thak Jaata Hun

Paaon Rakhtay Hain Jo Mujh
Per Unhain Ehsaas Nahi

Mein Nishaanaat Mitaatay
Huway Thak Jaata Hun

Barf Aisi Keh Pighalti Nahi
Paani Ban Kar

Pyaas Aisi Keh Bujhaatay
Huway Thak Jaata Hun

Achi Lagti Nahi Is Darja
Shanasaayi Bhi

Haath Haathon Sey Milaatay
Huway Thak Jaata Hun

Gham Gusaari Bhi Ajab
Kaar-e-Mohabbat Hai Keh
Mein

Ronay Waalon Ko
Hansaatay Huway Thak
Jaata Hun

Itni Qabrain Na Banaao Merey
Andar “Mohsin”

Mein Chiraaghon Ko
Jalaatay Huway Thak
Jaata Hun

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets