میں نے برسوں عشق نماز پڑھی
تسبیحِ محبت ہاتھ لئے
چلی ہجر کی میں تبلیغ کو اب
تری چاہت کی آیات لئے
اک آگ وہی نمرود کی ہے
میں اشک ہوں اپنے ساتھ لئے
مجذوب ہوا دل بنجارہ
بس زخموں کی سوغات لئے
دل مسجد آنکھ مصلیٰ ہے
بیٹھی ہوں خالی ہاتھ لئے
اے کاش کہیں سے آجائے
وہ وعدوں کی خیرات لئے
No comments:
Post a Comment