اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے
سوچتا ہوں کہ اب انجامِ سفر کیا ہوگا؟
لوگ بھی کانچ کےہیں راہ بھی پتھریلی ہے
شدتِ کرب میں تو ہنسنا کرب ہے میرا
ہاتھ ہی سخت ہیں زنجیر کہاں ڈھیلی ہے؟
گرد آنکھوںمیں سہی، داغ تو چہرے پہ نہیں
لفظ دھندلے ہیں مگر فکر تو چمکیلی ہے
گھول دیتا ہے سماعت میں وہ میٹھا لہجا
کس کو معلوم کہ یہ قِند بھی زہریلی ہے
پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اسنے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے
مجھکو بے رنگ نہ کردیں کہیں رنگ اتنے
سبزموسم ہے، ہوا سرخ، فضا نیلی ہے
میری پرواز کسی کو نہیں بھاتی تو نہ بھائے
کیا کروں ذہن مظفر میرا جبریلی ہے۔
No comments:
Post a Comment