مجھ کو دیکھنے والے تو کس دھیان میں ہے
آخر کیا مشکل میری پہچان میں ہے
اپنےہجر کے پسِ منظر میں جھانک مجھے
میری سب روداد اِسی عنوان میں ہے
کب سننے دیتی ہے شور سمندر کا
پانی کی اِک بوند جو میرے کان میں ہے
بن سوچے سمجھے توثیق نہیں کرتا
کفر وہ شامل جو میرے ایمان میں ہے
ٹانک دو اس میں اِک مصنوعی تتلی بھی
کاغذ کا جو گلدستہ گلدان میں ہے
حجرے میں گر کوئی بات ہوئی تو کیا
تھوڑا سا شیطان تو ہرانسان میں ہے
شوق تو یہ ہے آج کے فاتح کہلائیں
جنگ ابھی تک ماضی کے میدان میں ہے
پچھلی تحریروں کو بھول کے اے شاعر
تیرا نیا قصیدہ کس کی شان میں ہے
No comments:
Post a Comment