ہیں آنکھیں جھیل سی، چہرہ کتاب جیسا ہے
کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے
کسی بھی بات پر اب بھیگتی نہیں آنکھیں
کہ اپنا حال سُوکھے چناب جیسا ہے
یہ آرزو ہے کبھی تو اندھیری شب میں ملے
وہ ایک شخص کہ جو ماہتاب جیسا ہے
یہ سازِ جان تو خاموش ایک عمر سے ہے
اگرچہ لہجہ ابھی تک رباب جیسا ہے
میں اُس کے حسن کی تعریف کس طرح سے کروں؟
وہ آفتاب سا، ماہتاب جیسا ہے
تمھارے بعد میں کس چیز سے لگاؤں دل؟
مری نظر میں سبھی کچھ حباب جیسا ہے
ہر ایک ذرہ چمکدار کیوں نہیں ہوتا؟
ہر ایک ذرہ اگر آفتاب جیسا ہے
کسے سناؤں میں اس دل کی داستاں واثق؟
شبِ فراق کا ہر پل عذاب جیسا ہے
No comments:
Post a Comment