ردیف ، قافیہ ، بندش ، خیال ، لفظ گری
وُہ حور ، زینہ اُترتے ہوئے سکھانے لگی
صحیفہ حُسن کا ، اِس شان سے ہُوا نازل
خدا کی شان میں ، ہر ’’یاد آیہ‘‘ میں نے پڑھی
کسی کے شیریں لبوں سے اُدھار لیتے ہیں
مٹھاس ، شہد ، رُطب ، چینی ، قند ، مصری ڈَلی
کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں
تھکن ، شراب ، دَوا ، غم ، خُمارِ نیم شبی
کسی کا زُلف کو لہرا کے چلنا ، اُف توبہ
شرابِ روزِ اَزل کے نشے میں مست پری
کسی کو چلتا ہُوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں
غزال ، مورنی ، موجیں ، نجم ، زمانہ ، گھڑی
کسی کے ساتھ نہاتے ہیں تیز بارش میں
لباس ، گجرے ، حیا ، زُلف ، آنکھ ، ہونٹ ، ہنسی
’’بشرطِ فال‘‘ کسی خال پر میں واروں گا
چمن ، پہاڑ ، دَمن ، دَشت ، جھیل ، خشکی ، تری
نگاہیں چار ہوئیں ، وَقت ہوش کھو بیٹھا
صدی ، دَہائی ، برس ، ماہ ، روز ، آج ، اَبھی
عطائے حسن تھی ، قیس اِک جھلک میں شوخ غزل
بیاض ہوتی مکمل ، مگر وہ پھر نہ ملی
No comments:
Post a Comment