Thursday, 6 September 2012

فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا



فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا 
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا 

خود چڑھا رکھے تھے تن پر اجنبیت کے غلاف 
ورنہ کب ایک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا 

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو 
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چُھو سکتا نہ تھا 

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی 
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا 

عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا 
آئینہ تو تھا مگر اس میں تیرا چہرا نہ تھا 

آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لئے 
آج میں رویا تو میرا ساتھ وہ رویا نہ تھا 

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جُدا ہونے سے تھیں 
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی شہر دُھندلایا نہ تھا 

سینکڑوں طُوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب 
ایک پتھر تھا خموشی کا جو ہلتا نہ تھا 

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم 
بُھول جانے کی سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا 

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets