Friday, 14 September 2012

باتیں تیری الہام ہیں، جادُو تیری آواز



باتیں تیری الہام ہیں، جادُو تیری آواز
رَگ رَگ میں اُترتی ہُوئی خوشبُو تیری آواز

بہتے چلے جاتے ہیں تہہِ آب ستارے!
جیسے کہیں اُتری ہو لب جُو تیری آواز

پابندِ شبِ کنجِ قفس میں میرا احساس
اُمید کی دھندلی سی کِرن تُو تیری آواز

میں شامِ غریباں کی اُداسی کا مسافر
صحراؤں میں جیسے کوئی جگنو تیری آواز

لفظوں میں چھپائے ہُوے بے ربط دلاسے
چنتی رہی شب بھر میرے آنسو تیری آواز

بس ایک میرے شوق کی تسکین کی خاطر
کیا کیا نہ بدلتی رہی پہلو تیری آواز

یہ ہجر کی شب بھیگ چلی ہے کہ میرے بعد
روتی ہے کہیں کھول کے گیسو تیری آواز؟

دیکھوں تو وہی میں وہی چپ چپ سے دروبام
سوچوں تہ بکھر جائے ہر اِک سُو تیری آواز

محسن کے خیالوں میں اُترتی ہے سرِ شام
رِم جھم کی طرح باندھ کے گھنگھرو تیری آواز

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets