تم اور فریب کھاؤ بیانِ رقیب سے
تم سے تو کم گِلا ہے زیادہ نصیب سے
گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے
بربادِ دل کا آخری سرمایہ تھی امید
وہ بھی تو تم نے چھین لیامجھ غریب سے
دھندلا چلی نگاہ دمِ واپسی ہے اب
آ پاس آ کہ دیکھ لوں تجھ کو قریب سے
No comments:
Post a Comment