منتظر کب سے تحیر ہے تیری تقریر کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
جانے تو کس عالم میں بچھڑا ہے کہ تیرے بغیر
آج تک ہر لفظ فریادی میری تحریر کا
جس طرح بادِل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے وہ عالم بھی دیکھا ہے تیری تصویر کا
کس طرح پایا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
جوئے خوں کو نام دیتے ہیں جوئے شِیر کا
جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فراز
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
No comments:
Post a Comment