نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا
میرے درد کی آب و تاب میں مجھے دیکھنا
کسی وقت شامِ ملال میں مجھے سوچنا
کبھی اپنے دل کی کتاب میں مجھے دیکھنا
کسی رات ماہ و نجوم سے مجھے پوچھنا
کبھی اپنی چشمِ پُر آب میں مجھے دیکھنا
میں جو رات بھر غمِ آفتابِ سحر میں تھی
اُسی شعلہ رو کے عتاب میں مجھے دیکھنا
کسی دُھن میں تم بھی جو بستیوں کو تیاگ دو
اسی راہِ خانہ خراب میں مجھے دیکھنا
اسی دل سے ہو کر گزر گئے کئی کارواں
کئی ہجرتوں کے عذاب میں مجھے دیکھنا
میں نہ مل سکوں بھی تو کیا ہوا کہ فسانہ ہوں
نئی داستاں نئے باب میں مجھے دیکھنا
میرے خار خار سوال میں مجھے ڈھونڈنا
میرے گیت میں میرے خوب میں مجھے دیکھنا
میرے آنسوؤں نے بجھائی تھی میری تشنگی
اسی برگزیدہ سحاب میں مجھے دیکھنا
وہی ایک لمحہء دید تھا کہ رکا رہا
میرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا
No comments:
Post a Comment