تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حُسنِ یزداں تُجھے ، حُسنِ بُتاں تک دیکھوں
تُو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں ترے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
صرف اس شوق سے پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حُسن، ترے حُسنِ بیاں تک دیکھوں
میرے ویرانہءِ جاں میں تری یادوں کے طفیل
پھول کِھلتے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں
وقت نے ذہن میں دھندلا دیئے تیرے خدوخال
یوں تو میں ٹوٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
اک حقیقت سہی فردوس میں حُوروں کا وجود
حُسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
No comments:
Post a Comment