پرسہ دیتی ہے مجھے سرمئی شام بھی گاہے گاہے
ہوا لکھتی ہے پیڑوں پہ تیرا نام بھی گاہے گاہے
رقص کرتی ھوئی خوشیوں کا تناسب کم ہے
ساتھ چلتے ہیں گردش ایام بھی گاہے گاہے
کچھ تو بادل بھی میرے شہر کا نصیبہ ٹھہرے
اور وہ چاند آتا ہے لب بام بھی گاہے گاہے
اس کے مسلک میں جفا ہے نہ شفا ہے یارو
اسی طبیب سے رہتا ہے مگر کام بھی گاہے گاہے
اتنی نازاں نہ ہو قسمت پہ ائے میری دشمن جان
خاک میں مل جاتے ہیں لالہ وگلفام بھی گاہے گاہے
اس کڑی دھوپ میں یاد آئی ہے صبح چمن
اور بدلیوں سے جھانکتی وہ شام بھی گاہے گاہے
شہر آشوب میں نقد و نظر کیا معنی انور جمال
شاعر بک جاتے یہاں بے دام بھی گاہے گاہے
No comments:
Post a Comment