کونپلیں ریت سے پُھوٹیں گی سر ِ دشت ِ وفا
آبیاری کے لِیے خُون ِ جِگر تو لاؤ
کِسی گُھونگھٹ سے نکل آئے گا رُخسار کا چاند
جو اُسے دیکھ سکے ایسی نظر تو لاؤ
شہر کے کُوچہ و بازار میں سنّاٹا ہے
آج کیا سانِحہ گُزرا ہے خبر تو لاؤ
ایک لمحے کے لِیے اُس نے کِیا ہے اقرار
ایک لمحے کے لِیے عُمر ِ خضر تو لاؤ
No comments:
Post a Comment