جانے کیوں شکست کا عذاب لئے پھرتا ہوں
میں کیا ہوں اور کیا خواب لئے پھرتا ہوں
اس نے ایک بار کیا تھا سوالِ محبت
میں ہر لمحہ جواب لئے پھرتا ہوں
اس نے پوچھا کب سے نہیں سوئے
میں تب سے رت جگوں کا حساب لئے پھرتا ہوں
اس کی خواہش تھی کہ میری آنکھوں میں پانی دیکھے
میں اس وقت سے آنسؤں کا سیلاب لئے پھرتا ہوں
افسوس کہ پھر بھی وہ میرا نہ ہوا ساقی
میں جس کی آرزو کی کتاب لئے پھرتا ہوں
No comments:
Post a Comment