تیری یاد کہیں رکھ کر میں بھول گیا ہوں
سوچا تھا پہلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ھیں
پھر تو سارے ماہ و سال اسی کے ساتھ گزرنے ہیں
جب یہ فرض ادا کر لوں گا جب یہ قرض اتاروں گا
عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا
آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہےٴ
تنہائی میں بیٹھ کر اپنا ایک ایک زخم ٹٹولا ہے
چھان چکا ہوں جسم اور روح پر آئی ہوئی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے ارمانوں کی لاشوں کو
کمرے میں کہیں رکھا تھا اسے یا گھر میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھپایا تھا
ساری عمر کا حاصل تھی وہ کھونے والی چیز نہ تھی
سوچ رہا ہوں یاد تیری گم ہونے والی چیز نہ تھی
ورق ورق دیکھا ہے اپنی گرد آلود کتابوں کو
جیسے کوئی ڈھونڈ رہا ہوںبیداری میں خوابوں کو
مدت سے جوبند پڑی تھی وہ الماری دیکھی ہے
زنگ لگے صندوق کی ہر شے باری باری دیکھی ہے
کمرے میں پھیلا کر میں نےسوٹ پرانے دیکھ لئے
اپنی لکھنے والی میز کے سارے خانے دیکھ لئے
عقل کے ہاتھوں سے بھی اکثر نادانی ہوجاتی ہے
بہت سنبھال کر رکھنے پر بھی چیز کبھی کھو جاتی ہے
اپنے سارے گھر والوں کو دیوانہ سا لگتا ہوں
اس کمرے سے اس کمرے میں کھویا کھویا پھرتا ہوں
سوچ سمجھ کر دنیا کی نظروں سے بچا کر رکھا تھا
میں نے تو اس یاد کو اپنے لئے بچا کر رکھا تھا
تیری یاد کہیں رکھ کر میں بھول گیا ہوں۔
(سیف الدین سیف)