کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سوگئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سوگئے
اُس نے پیام بھیجے تو رستے میں رہ گئے
ہم نے جو خط لکھے تو ہَوا بُرد ہو گئے
ہم نے جو خط لکھے تو ہَوا بُرد ہو گئے
مَیں شہرِ گل میں زخم کا چہرہ کسے دکھاؤں
شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھو گئے
شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھو گئے
آنچل میں پھُول لے کے کہاں جا رہی ہُوں مَیں
جو آنے والے لوگ تھے ، وہ لوگ تو گئے
جو آنے والے لوگ تھے ، وہ لوگ تو گئے
کیا جانیے ، اُفق کے اُدھر کیا طلسم ہے
لَوٹے نہیں زمین پہ ، اِک بار جو گئے
لَوٹے نہیں زمین پہ ، اِک بار جو گئے
جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پھُول کے سب زخم دھو گئے
بارش کے ہاتھ پھُول کے سب زخم دھو گئے
آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے
وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سوگئے!
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سوگئے!
کیا دُکھ تھے ، کون جان سکے گا، نگارِ شب !
جو میرے اور تیرے دوپٹّے بھگو گئے!
جو میرے اور تیرے دوپٹّے بھگو گئے!
No comments:
Post a Comment