چلو وہ عشق نہیں ، چاہنے کی عادت ہے
کہ کیا کریں ہمیں ایک دوسرے کی عادت ہے
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے
تیرے نصیب میں اے دل ، سدا کی محرومی
نہ وہ سخی ، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے
وصال میں بھی وہی ہے فراق کا عالم
کہ اس کو نیند ، مجھے رتجگے کی عادت ہے
یہ خود اذیتی کب تک فراز تُو بھی اُسے
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے
No comments:
Post a Comment