میری موت ہے میری ہمسفر، میری زندگی بھی عجیب ہے
میرے چاروں طرف ہے جلوہ گر، تیری بے رُخی بھی عجیب ہے
میرا درد ہے لبِ آشنا، تیری رنجشوں کے عذاب سے
میرے شعر ہیں میرے چارہ گر، میری دل لگی بھی عجیب ہے
میرے شعر ہیں میرے چارہ گر، میری دل لگی بھی عجیب ہے
جو ہیں طعنہ زن میری ذات پر، مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں
مجھے جان سے وہ عزیز تر، میری دوستی بھی عجیب ہے
مجھے جان سے وہ عزیز تر، میری دوستی بھی عجیب ہے
میں لہو جگر سے گداز کر، تجھے نقش کرتا ہوں ورق ورق
ہے قلم کی نوک سے مختصر، تیری آگہی بھی عجیب ہے
ہے قلم کی نوک سے مختصر، تیری آگہی بھی عجیب ہے
میں پہر کی تپتی ہواؤں سے، کڑی دھوپ میں کھڑا بے خبر
سرِ راہ گزر تیرا منتظر، میری بے بسی بھی عجیب ہے
سرِ راہ گزر تیرا منتظر، میری بے بسی بھی عجیب ہے
No comments:
Post a Comment