داغ دل ہمکو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئے جلانے لگے
کچھ نہ پاکر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں هاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے ابّ یہی منزل
ابّ یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گمان
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوۓ زمانے میں
تیرے قصّے بھی کچھ پرانے لگ
رخ بدلنے لگا اب فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
ہم تک آے نہ آے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
No comments:
Post a Comment