تختی مرے مکاں پہ مرے نام کی لگی
پھر ایسی بھیڑ گردشِ ایام کی لگی
اُس کی نگاہِ برق سے بھڑکی جو سینے میں
وہ آگ صبح تک نہ بجھی شام کی لگی
مجھ کو کوئی بلاتا نہیں میرے نام سے
تہمت عجیب مجھ پہ ترے نام کی لگی
اُس شخص سے بچھڑ کے کئی روز تک مجھے
صورت عجیب اپنے در و بام کی لگی
دینا نہ دل کسی کو، کہ جاں سے بھی جاؤ گے
درویش کی یہ بات بڑے کام کی لگی
جو چاہے جب، خرید لے دل ایسا ہو گیا
یہ جنس بھی ہمیں یہاں نیلام کی لگی
ہے ترک کچھ دنوں سے جو کارِ سخنوری
ریحان تم کو لت ہے یہ آرام کی لگی
No comments:
Post a Comment