اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے
کرو گے الفت تو روز جینا یہ روز مرنا بھی سیکھ لو گے
کوئی ارادہ ابھی تخیل میں پھول بن کے مہک رہا ہے
جب آسماں نے مزاج بدلا تو پھر بکھرنا بھی سیکھ لو گے
محبتوں کے یہ سارے رستے ہی سہل لگتے ہیں ابتدا میں
تم آج چل تو رہے ہو لیکن کہیں ٹھہرنا بھی سیکھ لو گے
کسی خلش سے فریب کھا کر تم اپنے جیون کے راستوں سے
نظر بدلتی ہوئی رتوں کی طرح گزرنا بھی سیکھ لو گے
خمارِ قربت کے خود فراموش موسموں میں یونہی اچانک
تم اپنی ہستی کی جان پہچان سے مکرنا بھی سیکھ لو گے
یہ وصل کا بے ثبات موسم جدائیوں کو صدائیں دے گا
حسن ذرا دیر زندہ رہنے کے بعد مرنا بھی سیکھ لو گے
No comments:
Post a Comment