تم ایسا کرنا کہ کوئ جگنو کوئ ستارا سنبھال رکھنا
میرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا
اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئ تھی چاندنی کی
اب اس میں اگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا
دیار الفت میں اجنبی کو سفر ھے درپیش ظلمتوں کا
کھیں وہ راہوں میں کھو نا جائے ذرا دریچہ اجال رکھنا
وہ رسم و راہ ہی نہیں تو پھر یہ اثاثے کس کام کے تمہارے
ادھر سے گزرا کبھی تو لے لوں گا تم میرے خط نکال رکھنا
بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ ایسی نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہ رہا ہو تم اپنے گھر کا "دھیان" رکھنا
یہ دھوپ چھا'وں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا
کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذر
تم احطیا"ط زمین کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا
No comments:
Post a Comment