تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی
ہماری جان تھی، جان پر وبال ویسے ہی
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمھارا خیال ویسے ہی
ہم آ گئے ہیں تہہ دام تو نصیب اپنا
ورنہ اس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی
میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اس کا
گری نہیں میرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی
مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا
فراز اس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی
No comments:
Post a Comment