لوگ ہر موڑپہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
تنہا ڈرتے ہیں توپھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
میں نہ کوئی جگنو ہوں ، نہ دیا ، نہ چاند
پھر روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں
جب نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے میری پلکوں پہ ٹہلتے کیوں ہیں
اس میں موسم کا قصور ہے یا لوگوں کا
لوگ موسم کی طرح پل بھر میں بدلتے کیوں ہیں
No comments:
Post a Comment