عکس کتنے اُتر گئے مجھ میں
پھر نجانے کدھر گئے مجھ میں
یہ جو میں ہوں زرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں
میرے اندر تھی ایسی تاریکی
آ کے آسیب ڈر گئے مجھ میں
میں نے چاہا تھا زخم بھر جایئں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
پہلے اُترا میں دل کے دریا میں
پھر سمندر اُتر گئے مجھ میں
کیسا خاکہ بنا دیا مجھ کو
کون سا رنگ بھر گئے مجھ میں
میں وہ پل تھا جو کھا گیا صدیاں
سب زمانے گزر گئے مجھ میں
بن کے خورشید سامنے آئے
اور پھر رات کر گئے مجھ میں
No comments:
Post a Comment