اُس کی آنکھوں نے کہی کیسی کہانی مجھ سے
رات بھر روٹھی رہی نیند کی رانی مجھ سے
موسمِ ہجر میں ممکن ہے میری یاد آئے
آج تم لے لو کوئی تازہ نشانی مجھ سے
کیا کوئی سوچنا اور کیا کوئی شجرہ پڑھنا
اُس کے بارے میں سنو بات! زبانی مجھ سے
سامنے اُس کے میں خاموش کھڑی رہتی ہوں
چھین لی وقت نے کیوں شعلہ بیانی مجھ سے
مشرقی لڑکی ہوں، کردار نہیں بیچوں گی
چاہتی کیا ہے بھلا میری جوانی مجھ سے
ہجر میں اُس کی جلوں، راکھ کی صورت بکھروں!
کس لیے روٹھا ہے ساون کا یہ پانی مجھ سے
وہ دھنک رنگ، وہ خوشبو تُو کہاں چھوڑ آئی
پوچھتی ہے یہی ہر شام سہانی مجھ سے
میں تو ہاتھوں پہ حنا رنگ لئے بیٹھی تھی
ہجر نے چھین لی پوشاک بھی دھانی مجھ سے
ہجرتوں نے مری پہچان مِٹا دی نیہا
اب نہیں ہوگی کوئی نقل مکانی مجھ سے
No comments:
Post a Comment