روشنی دل کے دریچوں میں بھی لہرانے دے
اس کو احساس کے آنگن میں بھی اتر جانے دے
حبس بڑھ جائے تو بینائی چلی جاتی ھے
کھڑکیاں کھول کے رکھ تازہ ہوا آنے دے
ترے روکے سے وہ بد عہد کہاں رکتا ھے
پاؤں چھونے سے بہتر ھے اسے جانے دے
جن مین اب تک مرے بچوں کا لہو جلتا ھے
ان مکانوں پہ تو پرچم مرا لہرانے دے
تو جو آیا ھے تو جی بھر کے تجھے دیکھیں گے
بارش اشک ذرا آنکھ سے تھم جانے دے
No comments:
Post a Comment