میری چاہت کا سفر اِس لئے دشوار رہا
میں محبت میں وفائوں کا طلبگار رہا
ہو گئے سارے گلے دور جدا ہوتے ہی
غمزدہ وہ ہے نہ میں اُس کا گرفتار رہا
نامرادی کے سوا ہجر کے آلام بھی تھے
پھر زمانے کا زمانہ ہی ستمگار رہا
جذبہِ شوق نے اُس وقت بھی چاہا تجھکو
جب وہ شوخی نہ وہ گیسو نہ وہ رخساررہا
آنکھ کے گرد کوئی ضبط کی دیوار رہی
ایک دریا کا تلاطم پسِ دیوار رہا
اِس قدر ہمسفری سے تھا ہراساں وہ شخص
ساتھ ہی چھوڑ گیا دشت کے اُس پار رہا
No comments:
Post a Comment