تپش ہے کیسی دسمبر کی ان ہواؤں میں
سلگ رہا ہے بدن بھی یہاں تو چھاؤں میں
نہ آیا لوٹ کے اور انتظار چھوڑ گیا
کہاں تلاش کریں اس کو اب خلاؤں میں
نہ دیکھا اس نے پلٹ کر نہ میری بات سُنی
خدایا اتنا اثر بھی نہیں صداؤں میں
ہنسی دکھاوا ہے رشتہ ہے آنسوؤں سے مرا
کہ مرا جنم ہوا ہے ابھی گھٹا ؤں میں
نظر ملا کے جتانی ہوئی غضب الفت
شمار ہم کو کیا اس نے بے وفاؤں میں
لٹا ہے کوئی کسی کا ہوا ہے قتل یہاں
لہو برستا ہے ساون کی کیوں گھٹاؤں میں؟
وفا بھی جرم ہے کہ ہے گناہِ عظیم
کڑی ہے اس کی سزا دہر کی سزاؤں میں
No comments:
Post a Comment