Wednesday, 11 January 2012

نہ آیا لوٹ کے اور انتظار چھوڑ گیا




تپش ہے کیسی دسمبر کی ان ہواؤں میں
سلگ رہا ہے بدن بھی یہاں تو چھاؤں میں

نہ آیا لوٹ کے اور انتظار چھوڑ گیا
کہاں تلاش کریں اس کو اب خلاؤں میں

نہ دیکھا اس نے پلٹ کر نہ میری بات سُنی
خدایا اتنا اثر بھی نہیں صداؤں میں

ہنسی دکھاوا ہے رشتہ ہے آنسوؤں سے مرا
کہ مرا جنم ہوا ہے ابھی گھٹا ؤں میں

نظر ملا کے جتانی ہوئی غضب الفت
شمار ہم کو کیا اس نے بے وفاؤں میں

لٹا ہے کوئی کسی کا ہوا ہے قتل یہاں
لہو برستا ہے ساون کی کیوں گھٹاؤں میں؟

وفا بھی جرم ہے کہ ہے گناہِ عظیم
کڑی ہے اس کی سزا دہر کی سزاؤں میں


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets