سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ
ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اُس کی، غیروں جیسے ڈھنگ
تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ
دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ
انہی کے صدقے یا رب میری مشکل کر آسان
میرے جیسے اور بھی ہیں جو دل کے ہاتھوں تنگ
سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ ہوگی پوری تیرے دل کی ایک امنگ
کیوں نہ اب اپنی چوڑیوں کو کرچی کرچی کر ڈالوں
دیکھی آج اک سندر ناری پیارے پیا کے سنگ
شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتو گی اپنے آپ سے جنگ
No comments:
Post a Comment