یہ رات ختم ہو کہ مری ذات ختم ہو
آ جائے نیند، درد کی برسات ختم ہو
کیسے گُزرتے ہیں مرے دن رات بِن ترے
اِظہار کرنے بیٹھوں تو نہ بات ختم ہو
آنکھوں میں لگ گئی ہے جھڑی تیری یاد سے
مِلنے چلے بھی آؤ کہ برسات ختم ہو
اِک روز آفتاب بھی ایسے غروب ہو
جاناں ترے وصال کی نہ رات ختم ہو
ایسا بھی کیا کہ عُمر سے لمبی جُدائی ہو
ایسا بھی کیا کہ پَل میں مُلاقات ختم ہو
No comments:
Post a Comment