چاند اُس دیس میں نکلا کہ نہیں
جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں
جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں
اے مجھے جاگتا پاتی ہُوئی رات
وہ مری نیند سے بہلا کہ نہیں
وہ مری نیند سے بہلا کہ نہیں
بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا
اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں
اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں
مجھ کو تکمیل سمجھنے والا
اپنے معیار میں بدلا کہ نہیں
اپنے معیار میں بدلا کہ نہیں
گنگناتے ہوئے لمحوں میں اُسے
دھیان میرا کبھی آیا کہ نہیں
دھیان میرا کبھی آیا کہ نہیں
بند کمرے میں کبھی میری طرح
شام کے وقت وہ رویا کہ نہیں
شام کے وقت وہ رویا کہ نہیں
میری خوداری برتنے والے
تیر ا پندار بھی ٹوٹا کہ نہیں
تیر ا پندار بھی ٹوٹا کہ نہیں
الودع ثبت ہُوئی تھی جس پر
اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں
اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں
No comments:
Post a Comment