بہار، پھول، ستارے، ٹھہر کے دیکھتے ہیں
خزاں کے رنگ بھی تُجھ کو سنور کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے حرف کو مفہوم تُجھ سے ملتے ہیں
" یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں"
وہ مِثلِ موجِ صبا صحنِ گُل میں جب بھی چلے
شفق کے رنگ زمیں پر اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آنکھیں تری جھیل سے بھی گہری ہیں
ہم اشک بن کے تری چشم تر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے، تابِ نظارہ کوئی نہیں رکھتا
یہ امتحاں ہے تو اس سے گُزر کے دیکھتے ہیں
No comments:
Post a Comment