خُوشبو کے ساتھ اُسکی رفاقت عجیب تھی
لمسِ ہوائے شام کی راحت عجیب تھی
چشمِ شبِ فراق میں ٹھہری ہے آج تک
وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی
آساں نہیں تھا تُجھ سے جدائی کا فیصلہ
پر مُستقل وصال کی وحشت عجیب تھی
لِپٹا ہوا تھا ذہن سے اِک کاسنی خیال
اُترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی
اِک شہرِ آرزو سے کسی دشتِ غم تلک
دِل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی
ملِنے کی آرزو، نہ بِچھڑنے کا کچھ ملال
ہم کو اُس آدمی سے محبت عجیب تھی
آنکھیں ستارہ ساز تھیں، باتیں کرشمہ ساز
اُس یارِ سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی
گُزرا تھا ایک بار، ہوائے خزاں کے بعد
اور موجہِ وصال کی حِدّت عجیب تھی
ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب
اُس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی
اِس بار دِل کو خُوب لگا موت کا خیال
اِس بار دردِ ہجر کی شِدّت عجیب تھی
No comments:
Post a Comment