ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنے مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
ترے چشمِ عالم نواز کی خیر
دل میں کوئی گلہ نہیں باقی
ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی
No comments:
Post a Comment