در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ھے
کسے خبرکہ اسیروں پہ کیا گزرتی ھے
تعلقات کبھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ھے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ھے اس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ھے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ھے
یہ اہل ہجر کی بستی ھے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ھے
نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں"محسن"
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ھے
No comments:
Post a Comment